Monday, March 16, 2009

اثبات:ڈاکٹر توصیف تبسم

محمد حمید شاہد کےپچاس افسانے

انتخاب/ترتیب
ڈاکٹر توصیف تبسم


محمدحمید شاہداُردو افسانے کا معتبر نام ہے ‘ یہ اعتبار مسلسل ریاضت اور غوروفکر کا حاصل ہے۔ اس سلسلے میں یہی گواہی کیا کم ہے کہ جب محمد حمید شاہد کا افسانہ ”مرگ زار“ بھارت کے ادبی جریدے “نیا ورق“ میں شائع ہوا تو اس کو پڑھ کر ممتاز نقاد وارث علوی بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے اِس کی تیکنیک کو سراہا اور بولے کہ افسانہ تو پاکستان میں لکھا جا رہا ہے۔ ادھر شمس الرحمن فاروقی نے بھی اطلاع دی کہ محمد حمید شاہد کے ایک اور افسانہ ”لوتھ“ کو وہاں شامل نصاب کر لیا گیا ہے۔
محمد حمید شاہد نے اپنے ادبی سفر کا آغاز نثر کی دیگر اصناف اور شاعری سے کیامگر بہت جلد وہ افسانہ کی طرف آگئے ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیںکہ اُردو اَفسانے سے مجھے جو ربط ِخاص ہے اس کا سبب اِس کے سوا اورکچھ نہیں ہے کہ میں اَپنے تخلیقی وجودکو اِس باکمال صنف سے ہم آہنگ پاتا ہوں ۔ اِسی محبت کا فیضان ہے کہ میں اَفسانے کی تخلیقی فضا میں رہتے ہوئے مختلف اوقات میں اُردو اَفسانے کی تفہیم کے جتن کرتا رہتاہوں۔اردو افسانے کی جس تفہیم کا تذکرہ محمد حمید شاہد نے یہاں کیا ہے ‘اس کی عملی صورت ”اردو افسانہ : صورت ومعنٰی“ ہے ‘ جو اردو فکشن پر لکھے گئے ان کے مضامین پر مشتمل ہے ۔ یہ کتاب ۶۰۰۲ءمیں شائع ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد حمید شاہد ایک تخلیق کار ہی نہیں ‘ایک باشعور نقاد بھی ہیں ۔ اسی کی دہائی میں جب انہوں نے افسانے لکھنے شروع کیے تو ان کی ان تحریروں کو وہ توجہ اور پزیرائی ملی جو شایدہی ان کے کسی اور ہم عصر کے حصہ میں آئی ہوگی۔ اس تخلیقی سفر کے دوران ‘ان افسانوں کے موضوعات کی وسعت و تنوع اور اسلوب کی رنگا رنگی نے جہاں صف اوّل کے افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی اور ممتاز مفتی کو متاثر کیا‘ وہیں ان کے معاصرین بھی ان کی تخلیقات سے صرف نظر نہ کر سکے۔ شمس الرحمن فاروقی‘ پروفیسر فتح محمد ملک‘ ڈاکٹر ستیہ پال آنند‘ ڈاکٹر اسلم فرخی ‘ خالدہ حسین‘ محمد منشایاد جیسے بالغ نظر ادیب اور نقاد ان کے فن پر بات کرنے والوں میں شامل ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ محمد حمید شاہد کہانی کہنے کے فن پر حیرت انگیز طور پر قدرت رکھتے ہےں۔ان کا مشاہدہ گہرا اور تیز ہے ‘ وہ زندگی کو کسی شاہراہ سے نہیں بلکہ اس کی پگڈنڈیوں سے گزر کر دیکھنے کے عادی ہیں۔ اس طرح کہ زندگی کا بھر پور ابلاغ ان کی کہانیوں سے ہوجاتا ہے۔ان کی کہانیوں میں عہد موجود کی معاشرتی ‘ثقافتی اور تہذیبی زندگی کے نقوش بڑے واضح اور اتنے نمایاں ہیں کہ ان سے لمحہµ رواں کی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ ممتاز مفتی کو ان کے یہاں بیان کی سادگی‘ لکھنے والے کا خلوص اور خیالات کی یک گونہ ندرت نے متوجہ کیا تو شمس الرحمن فاروقی نے محمد حمید شاہد کو ایک حساس اور ہوش مند قصہ گو قرار دیا ۔ ایسا حساس تخلیق کار جس کے بیانیہ میں موضوع کی پیچیدگی اور قصہ کی دل چسپی یک جان ہو گئے ہیں۔ محمد منشایاد نے کہا کہ محمد حمید شاہد کے ہاں روایت سے انحراف کی کہانیاں بھی ہیںجن میں کہانی کے اندر کہانی بیان کرنے کالطف پیدا کیا گیا ہے اور وہ بھی کچھ اس تخلیقی سلیقے سے کہ وحدت تاثر قائم رہتی ہے۔ ان کے موضوعات اور ان کا اسلوب‘دونوں جددرجہ متنوع اور رنگارنگ ہیں۔ پر وفیسر فتح محمد ملک نے کہا کہ محمد حمید شاہد کی کہانیاں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ حقیقت کے باطن اور باطن کی حقیقت تک رسائی کے تمنائی ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی کہانیوں کی دوسطحیں ہیں۔ یہ کہانیاں شہر وجود کے خارجی احوال و مقامات کی سیر بھی کراتی ہیں اور حاضر و موجود کا طلسم توڑ کر غائب اور نارسا کی جستجو بھی کرتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی عصری زندگی کے مصائب پر بھی انہوں نے قلم اٹھایا ہے۔ ان کی کہانی ”مرگ زار“ اس کی روشن مثال ہے جو نائن الیون کے پس منظر میں لکھی گئی ۔ یہ اور اس طرح کی کہانیاں عہد موجود کا نوحہ ہیں۔
محمد حمید شاہد کی کہانیوں کے تین مجموعے سامنے آچکے ہیں ۔ وہ مسلسل لکھ رہے ہیں اور ان کی کہانیاں ادبی جریدوں میں تواتر سے شائع ہو رہی ہیں۔ ”بند آنکھوں سے پرے“ ان کے افسانوں کااولین مجموعہ۴۹۹۱ءمیں شائع ہوا ۔ دوسرے مجموعے ”جنم جہنم “ ۸۹۹۱ءاور ”مرگ زار“ ۴۰۰۲ءمیں منظرعام پر آئے۔ محمد حمید شاہد کی پہلی کتاب ”بند آنکھوں سے پرے “ میں ہر دو روایات الگ الگ اپنا جادو جگا رہی تھیں ۔ ”برف کا گھونسلا“ اور ”مراجعت کا عذاب“ میں جہاں وہ حقیقت نگاری کے اسلوب کو فنی مہارت کے ساتھ برتتے ہیں‘وہاں”آئینے میں جھانکتی لکیریں“ اور” اپنا سکہ“ میں وہ ہمیں باطن کے شہر کی سیر کراتے اور غیر مرئی وجود کا تماشائی بناتے ہیں۔ اپنے پہلے ہی مجموعے میں جہاں افسانہ نگار نے متنوع موضوعات اور اسالیب کو برتنے کی کوشش کی تھی‘وہاں بظاہرسادہ بیانےے کو توڑے بغیر متن کی ساخت کے اندر قدرے بڑے اور گہرے معنیاتی سلسلے کو رکھ دینے کا التزام بھی کیا تھا۔اس کی عمدہ مثال” برف کا گھونسلا“ہے ۔ ”کفن کہانی“ اور” بند آنکھوں سے پرے “ اس مجموعے کی ایک اور مزاج کی بہترین کہانیاں ہیں۔ ان میں تیکنیک اور موضوع کی پیچیدگی قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہ کہانیاں ہمیں افسانہ نگار کے اگلے سفر کی نوید دیتی ہیں۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند کو ”جنم جہنم“ کے افسانے خاص طور پر اچھے لگے۔ انہیںان کہانیوں کے مکالمات کا طریق کار اور بیانیہ کا بہاﺅ دونوں مختلف محسوس ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ محمد حمید شاہد کو استعاراتی تفاعل کا ہنر آتا ہے ۔وہ معنیاتی انسلاکات پر قدرت رکھتے ہیں اور علامتی مفاہیم کا فن بھی جانتے ہیں۔
محمد حمید شاہد کے ہاں افسانہ لکھنا ایک باطنی تجربہ ہے جو اندر سے باہر کی طرف سفر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ اسی لیے وہ تخلیقی عمل کے لیے پہلے سے کسی منصوبہ بندی اور ادبی تحریکات کے فریم ورک کو زہر ہلا ہل سمجھتے ہیں۔ ان کی کہانی کسی شعر یا کسی نظم کی طرح ان کے اندر سے پھوٹتی ہے ۔ اسی میں ان کی انفرادیت کا راز پوشیدہ ہے۔ ان کا تخلیقی سفر دراصل ایک ذہنی اور روحانی سفر ہے جو مختلف سمتوں میں پھیل کر خود اپنا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتاہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں پورے افسانے کو اپنے اندر بننے دیتا ہوں ‘ پھر اس کو اس کی جزئیات سمیت کا غذ پر منتقل کرتا ہوں ۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ کہانی لکھتے ہوئے ‘عین مین وہی رہتی ہے جس کی چھب اس نے پہلے دکھا رکھی تھی ۔ کہانی جوں جوں آگے بڑھتی ہے ‘ نئی معنیاتی وسعتیں اور نئے امکانات کے دریچے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔خود ان کے الفاظ میں حقیقت کلی ہو یا تخلیقیت کا بھید دونوں عقلِ محض کا علاقہ نہیں ۔ ان دونوں منطقوں میں وجدان اور روح کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدائی کہانیوں میں شعری عناصر فکشن کے متن میں منقلب ہوتے رہے ہیں ۔ بعد کے افسانوںمیںعلامتی تہ داری کے باوجود بیانیہ فکشن کے آہنگ کو لے کر چلتا ہے۔ ان کے افسانوں میں کہانی محض واقعہ کی سطح پر نہیں رہتی ‘علامت بن جاتی ہے ۔ افسانے کو علامت کا منصب عطاکرنے والے عناصر کا بیشتر حصہ محمد حمید شاہد کے ہاں لوک داستانوں‘ اساطیر‘ مذہبی حکایات‘ مجموعی انسانی تجربے ‘گہری بصیرت اور مظاہر فطرت سے کشید ہوتاہے۔
محمد حمید شاہد کے نظریہ ءفن کا اثر اُن کے تصور اسلوب پر بھی پڑا ہے۔ گبن اور فلابیر نے لکھنے والے کے لیے اسلوب کو اس کی شخصیت کا عکس قرار دیا مگرمحمد حمید شاہدکہتے ہیں کہ بے شک تخلیقی عمل کا رِشتہ براہ راست ذَات کی دریافت کے ساتھ جڑا ہوا ہے مگر خیال رہے کہ دریافت شدہ ذات کا یہ رخ‘ زندگی کے ہنگاموں میں مصروف فرد کی مکمل شخصیت کوسامنے نہیں لاتابلکہ وہ اسی قدر روشن ہوپاتا ہے جتنا کہ وہ شخص خلوص سے اس کو دریافت کرتا ہے۔
محمد حمید شاہد نے اپنے افسانوں میں زبان و بیان کے کئی تجربے کیے ہیں۔ مگر یہ تجربے خارج سے مسلط نہیں کیے گئے بلکہ یہ سب کچھ کہانی کے بہاﺅ سے برآمد ہوتا رہا ہے۔ ان کے یہاں کہانی کا تصور اپنی زبان اور ٹریٹمنٹ کو ساتھ لے کر آتا ہے۔ محمد حمید شاہد ایک ہی انداز اور ایک ہی اسلوب میں ہر موضوع کو نہیں برتتے ‘بلکہ موضوع اور ماحول بدلنے سے نہ صرف زبان تبدیل ہو جاتی ہے بلکہ جملوں کی ساخت بھی بدل جاتی ہے ۔ جن افسانوں میں انہوں نے مقامی طور ر بولی جانے والی زبان‘ اور اس کے مخصوص الفاظ‘اصطلاحات اور محاوروں سے کام لیا ہے وہاں وہ ایسی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کے بغیر یہ خاص کہانی حقیقی آب و رنگ سے محروم رہتی۔ ضیا جالندھری نے اسی لیے ان کے افسانوں میں زبان کے استعمال کو کہانی کی جزئیات سے یوں پیوست پایا ہے کہ قاری خود کو اس منظر نامے کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ افتخار عارف کے خیال میں محمد حمید شاہد کو یوں داد دینی پڑتی ہے کہ ان کی کہانیوں میں استعمال ہونے والی زبان نثری آہنگ رکھتے ہوئے بھی دل آویز اور موثر ہو جاتی ہے۔
محمد حمید شاہد کے یہ پچاس منتخب افسانے اس وقت پیش کیے جارہے ہیں جب کہ وہ اپنی عمر کے پچاس مراحل زندگی طے کر چکے ہیں۔ ان افسانوں کے انتخاب اور ترتیب میں بھی میں نے سمر سٹ ماہم والااصول سامنے رکھتے ہوئے‘ اپنے طور پر سوچا کہ اگر کوئی اورشخص انہیں منتخب کرتا تو کیسے کرتا؟اوّل مسئلہ افسانوں کے انتخاب اور پھر ان کی ترتیب کا تھا۔ آپ اگر چاہیں تو اس سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم میں نے شعوری طور پر یہ کوشش ضرور کی ہے کہ یہ انتخاب جہاں تک ممکن ہوبہ حیثیت افسانہ نگار محمد حمید شاہد کا نمائندہ انتخاب ہو۔ انتخاب کو ممکنہ حد تک جامع بنانے کے لیے ‘جہاں ان کے افسانوں کے مجموعے ” بند آنکھوں سے پرے“( ۴۹۹۱ئ)‘ ” جنم جہنم“ (۸۹۹۱ئ) اور ”مرگ زار“( ۴۰۰۲ئ) سے افسانے منتخب کیے گئے ہیں‘ وہیں ان کی بعض وہ کہانیاں بھی شامل انتخاب کی گئی ہیں جو ان کے کسی مجموعے میں کا حصہ نہیں ہیں تاہم یہ سب کہانیاں لائق توجہ ضرور ہیں۔
اب کچھ گفتگو ان افسانوں کے بارے میں تاکہ ایک طرف تو ان کے انتخاب میں شامل کرنے کا کسی حد تک جواز فراہم ہو سکے ‘ تو دوسری طرف ان افسانوں کی تفہیم کی راہ بھی ہموار ہو سکے ۔ افسانوں کے بارے میں میری رائے حتمی نہیں ہے ۔ اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے جو ہر قاری کا حق ہے۔ یوں بھی ہر متن معنوی اعتبار سے خود کو مختلف سطحوں پر دہراتا رہتا ہے۔
” سورگ میں سور“ محمد حمید شاہد کا ایسا افسانہ ہے جس پر مصنف بجا طور فخر کرسکتا ہے۔ ہم اس افسانے کو منٹو‘ بیدی اور انتظار حسین کے ایسے ہی افسانوں کے مقابلے میں رکھ سکتے ہیں۔ گیارہ ستمبر کے پس منظر میں لکھی جانے والی یہ کہانی سو¿روں کی آمد ‘ کتوں کی بہتات ‘ بکریوں کی اموات اور مونگ پھلی کی کا شت جیسی علامتوں سے محمد حمید شاہد نے عالمی استعمار کی اس مکروہ سازش سے پردہ اٹھایا ہے جس میں موت ہمارے تہذیبی تشخص کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اس کہانی کی کئی پرتیں ہیں۔ واقعاتی اورسامنے کی سطح پربھی اس کی ایک بھرپور معنویت ہے ۔ پھر کہانی جس طریقہ سے ایک علامتی موڑ کاٹتی ہے او ر ہمیں سیاسی جبرکی ایک نئی معنویت سے ہمکنارکراتی ہے وہ افسانہ نگار کی فنی ہنر مندی کاکمال ہے۔اس کہانی میںبڑی خوبصورتی سے جزیات نگاری سے کام لیا گیا ہے ۔ بنجرزمینوں کی ثقافت،وہاں کے معاملات ،بکریوں کی اقسام اوران کی بیماریوں کی تفصیلات سے‘ لکھنے والے کے وسیع تجربے ،مشاہدہ اورمعلومات کاپتا چلتاہے ۔ اس کہانی کا پورا منظر نامہ دیہی ہے۔ اس اعلان کے بعد کہ آج کی دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہو چکی ہے‘ عالمی استعمار کو پیش کرنے کے لےے دیہی استعارے زیادہ بامعنی ہو گئے ہیں۔ ”سورگ میں سور“ اپنے موضوع ‘اپنی تیکنیک اور فنی ہنر مندی کے حوالے سے محمد حمید شاہد کا بہترین اور اُردو ادب کا اہم ترین افسانہ ہے ۔ یہ افسانہ زندگی کا حسی ادراک کرنے اور ادراک کو کسی واحد مفہوم کی قطعیت سے آزاد رکھنے کی ایک قابل رشک مثال ہے۔ اسے تمثیلی پیرائے میں لکھا گیا ہے ۔ بالائی سطح پر یہ بارانی زمین پر آباد سورگ ایسے گاﺅں اور اس کے محنت کش باسیوں کی جہد حیات کی داستان ہے ‘ مگر زیریں سطح پر یہ ایک طرف وطن عزیز کی سیاسی اور پھر ثقافتی تاریخ کا بیانیہ ہے تو دوسری طرف نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی عالمی صورت حال کا قصہ بھی ہے ۔ یہ افسانہ اپنے اندر محض ہنگامی واقعیت نہیں رکھتا ‘یہ ایک بڑی فوجی طاقت کی بے رحمانہ سرگرمیوں کو تمثیلی انداز میں ہی پیش نہیں کرتا ‘ بلکہ ایک ایسی علامتی جہت بھی رکھتا ہے ‘ جسے مجموعی انسانی تاریخ کے کئی ادوار میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر اس افسانے کو انسانی تاریخ کی نئی اسطورہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔
”برف کا گھونسلا“محمد حمید شاہد کے پہلے مجموعے ”بند آنکھوں سے پرے“ کی پہلی کہانی ہے ۔ یہ کہانی ” ایکسٹرا“ کے نام سے ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر رشید امجد کے۴۹۹۱ءمیں مرتب کیے ہوئے انتخاب ”پاکستانی ادب “ میں چھپی تھی ۔ تاہم اِس کی تخلیق کا لگ بھگ وہی زمانہ بنتا ہے جب افغانستان میں روس کی پسپائی ہوئی اور امریکہ نے اپنے اتحادی پاکستان کی طرف سے نہ صرف آنکھیں پھیر لی تھیں بلکہ اس کی امداد بھی بند کر دی تھی۔”برف کا گھونسلا“ پرندوں اور انسانوں پر مشتمل دو کنبوں کی کہانی ہے جو ایک ہی گھر میں رہتے ہیں لیکن ان کی تقدیریں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس کہانی میں بظاہر محمد حمید شاہد نے حقیقت نگاری سے کام لیتے ہوئے متن کو تشکیل دیا ہے مگر کہانی ایک سے زیادہ سطحوں پر علامت بن جاتی ہے ۔ یہ کہانی مراعات ےافتہ اور مظلوم طبقوں کو ایک تمثیلی انداز میں بھی پیش کرتی ہے اور پورے ایک طبقے کو ایکسٹرا کی صورت استعمال کرنے اور وقت نکل جانے کے بعد بہلاوے کے اس سامان کو یک سر بھلا دینے والے مکروہ کھیل کو بھی نہایت سفاکی سے سامنے لاتی ہے۔ چڑیا اور اس کے بچوں پر جو گزرتی ہے وہ بہت سے انسانی خاندانوں پر بھی بیتتی رہتی ہے۔ کہانی کادرد ناک انجام قاری کو ہلاکررکھ دیتا ہے۔ بظاہر چڑیا کی موت کوئی بڑا سانحہ نہیں مگر افسانہ نگار اس سے گہرا تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔یہ کہانی بہ حیثیت فن کار ان کے باکمال ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔
”برشور“ بلوچستان کی قحط زدہ سرزمین کے پس منظر میں لکھا گیا ایک مکمل شہ پارہ ہے جو غربت کے ہاتھوں انسان کی تذلیل ‘ بے توقیری اور عورت کی بے بسی کی تصویر ہے۔ انسان حالات کی چکی میں پستے پستے کیسے بھربھرے آٹے میں تبدیل ہو جاتا ہے‘اس صورت حال کا عمدہ بیان اس افسانے میں موجود ہے ۔ بلوچستان کے دیہی علاقوںکی غربت اور وہاں آباد لوگوں کی تصویر کشی کرکے محمد حمید شاہد نے پاکستانی اردو افسانے میں ایک ایسے عنصر کا اضافہ کیا ہے جو بہت کمیاب رہا ہے ۔ یہ ایک نیا اور دل دوز موضوع ہے۔ ایتھوپیا اور صومالیہ کی بھوک پر تو بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر ہمارے اپنے خطہ بلوچستان میں خشک سالی کا عفریت کس کس طرح انسانی زندگیوں اور مسرتوں کا لہو پی رہا ہے اس بارے میں کوئی افسانہ کم سے کم میری نظر سے نہیں گزرا۔
محمد حمید شاہد کی اولین کہانی”بند آنکھوں سے پرے“ سے ہی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کہانیاں موت کی ہم راز ہو گئی ہیں۔ موت ان کے افسانوں میں اپنا چہرہ دکھاتی رہتی ہے ۔ ”موت کا بوسہ“ جیسی کہانیوں میں موت مختلف عصری ‘سماجی اور معاشی سطحوں پر روپ بدل بدل کر باقاعدہ ایک کردار میں ڈھل جاتی ہے اور آدمی اس کے مقابل بے بس دکھائی دیتا ہے۔ ”موت کا بوسہ“ ‘ ”مرگ زار“ ‘ ” موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ اور ”دکھ کیسے مرتا ہے“ ایسی کہانیاں ہیں جو اپنے تیز ناخنوں سے اپنا ہی کلیجہ چھیل چھیل کر لکھی گئی ہیں۔ ”کفن کہانی“ محمد حمید شاہد کے اولین افسانوی مجموعے کی بہترین طویل کہانی ہے۔ خوب صورت بیانیہ اور جیتے جاگتے کرداروں والی اس کہانی میں بھی موت گھات لگائے بیٹھی ہے۔
”کیس ہسٹری سے باہر قتل“ ایک نئی کہانی ہے جو ابھی تک کسی مجموعہ کا حصہ نہیں بنی۔ یہ دو کنبوں کا قصہ ہے ۔ ایک طرف جدید زندگی ہے جو حساس آدمی کو مار ڈالنے پر تلی بیٹھی ہے اور دوسری طرف محبت کی بے پناہ لذت اور شدیدگرفت ہے جس میں سانس گھٹ جاتے ہیں ۔ یہ ڈاکٹر نوشین کی کہانی ہے جس کے پاس سب کچھ تھا ۔ اس کا شوہر بھی اس کی طرح کامیاب اور مصروف آدمی تھا۔اس کے ساتھ ہی وہ حد درجہ عیار بھی تھا ورنہ وہ اپنے ہنر اور اپنے فرض کوکمال چالاکی سے سرمایہ کاری بنانے میں کامیاب نہ ہوتا۔ پہلے دونوں کی مصروفیت کام کی لگن کی وجہ سے تھی ‘ پھر اس میں بہت سارے خواب شامل ہو گئے ۔ وہ دونوں ان خوابوں کی تعبیرتلاش کرنے میں اس درجہ الجھے کہ ایک دوسرے کے لیے جینے کا تصور ان کی زندگی سے معدوم ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ یہ بھی بھول گئے کہ ایک دوسرے کے لیے پریشان کیسے ہوا جاتا ہے‘ بے نتیجہ باتوں سے لطف کیسے کشید کیا جاتاہے اور بلاسبب کیسے ہنسا جاتا ہے ۔ یہ کہانی محض اس جوڑے کی کہانی نہیں ‘ ان کے پڑوس میں ایک اور جوڑا بھی موجود ہے۔ نفیسہ بیگم اور اس کا شوہر۔ محبت کی لذت میں پوری طرح شرابو ر۔گھر کی جھاڑ پونچھ اور ہانڈی روٹی کی محدود دنیا کو اپنے شوہر کی محبت کے لےے کل کائنات بنا لینے والی ۔ یہ کیس ہسٹری اسی عورت کی ہے مگر قتل وہ ہوتی ہے جو اس کیس ہسٹری سے باہر ہے۔ یہ کہانی محض ان دو عورتوں کی کہانی نہیں ہے ‘ کیوں کہ اس میں مرد ذات کی بھی کئی نفسیاتی گھتیاں کھلتی چلی جاتی ہیں۔
”نئی الیکٹرا“ سراسر معصیت ہے مگر اس نے معصومیت کی پر فریب قبا زیب تن کر رکھی ہے ۔ وہ دانے گن گن کر اسم اعظم کا ورد کرتی ہے تو چالیس کے چالیس چور اُس کے لیے کھل جا سم سم کہتے ہیں۔ حکمراں کی ساحری کے فن میں طاق‘ چالیس چوروں کی یہ سردارنی ہمارے زمانے کی مخلوق ہے اور ہماری اپنی سرزمین پر خون اور پیپ کے پیالے لنڈھانے میں مصروف ہے۔ اس عصری تماشے کو خیر وشر کے ازلی و ابدی تناظر میں رکھ کر دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش میں محمد حمید شاہد نے رفت و گزشت زمانوں اور دور و دراز سرزمینوں میں ہوس کی اسیری میں مبتلا ہیروئینوں کی سرگزشت کو بھی نئے سرے سے جانچا اور پر کھا ہے۔ شیطان کی شاگرد حسیناﺅں کے گرد بنے گئے عالمی ادب کے شاہکاروں سے برآمد ہونے والی آفاقی حقیقتوں کی روشنی میں محمد حمید شاہد نے ہمیں اپنی اجتماعی ہستی کو درپیش امراض سے روشناس کرایا ہے۔ یونانی دیو مالا کے پس منظر میں لکھی گئی اس کہانی کے ذریعہ افسانہ نگار نے معاصر صورت حال کو نئے معنی دینے کی کو شش کی ہے ۔ یہ ایک مشکل تیکنیک میں لکھا گیا افسانہ ہے مگر محمد حمید شاہد کے ہاں یہ پسندیدہ تیکنیک ہے کہ اس طرح وہ متن کے اندر معنویت کا ایک اور جہاں آباد کر لیتے ہیں۔
”لوتھ“ گیارہ ستمبر کے واقعات کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ ہے ۔ ایک کردار جو اپنے اردگرد کی آگاہی رکھتاہے ‘ جو حالات کے مطابق رد عمل ظاہرکر سکتا تھا‘ کیسے ناتجربہ کار ڈاکٹروں کی وجہ سے رفتہ رفتہ لوتھ میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔اس کہانی میں ان ڈاکٹروں کا المیہ بیان کیا گیا ہے جو رفتہ رفتہ اپنی اصل سے دور ہوتے جاتے ہیں اور ان اقدار اور اس طرز معاشرت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو ان کے اپنے تھے ۔ یہ سب کچھ کھو کر ان کے ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آتا۔ یہ کہانی احساس کی لہروں سے مرتب ہوئی ہے ۔ اس میں جوواقعات بیان ہوئے ہیںوہ بجائے خود کہانی کا مقصود نہیں ہیں ‘بلکہ آخری سطروں میں باپ کی آنکھوںمیں تیرتے ہوئے گھاﺅ کی لکیر ہے جسے باپ اپنے ہی بیٹے سے چھپالینے کی کوشش کر رہا ہے مگرافسانہ نگار تاسف کی اس لکیر کو دیکھ لینے میں کامیاب ہو جاتاہے اور پوری معنویت کے ساتھ اسے پیش کر دیتا ہے۔ یہ کہانی ہماری نصف صدی کی تاریخ میں دو نسلوں کے درمیان پھیلی ہوئی خلیج کا تنقیدی بصیرت کے ساتھ جائزہ لیتی ہے جس میں ہمارے خواب ڈوب چکے ہیں۔
”جنم جہنم “میں قاری کو فلسفہ ءلذتیت کے احوال و مقامات کی سیر کرائی گئی ہے۔یہ ایک کہانی نہیں بلکہ تین کہانیوں کا سلسلہ ہے۔ تینوں کہانیاں خشک بیانیہ اور بے جان مقالہ نہیں ہےں بلکہ دلکش حکیمانہ کہانیوں کا ایک سلسلہ ہےں۔ ”جنم جہنم“ کو افسانہ نگار نے تین سطحوں پر لکھا ہے۔ اس میں انسانی وجود اور اس پر گزرنے والی کیفیات کو بھی درجہ بہ درجہ بیان کیاگیا ہے ۔ ”جنم جہنم ۔۱“ میں ہمیں جدید وجودی فکر کے اثرات بہت واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا مرکزی نسائی کردار جب زندگی کی نئی شاہراہ پر نکل کھڑا ہوتا ہے تو اس کو جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس کا بیان ”جنم جہنم ۔۲“ میں سامنے آتا ہے۔ ”جنم جہنم ۔۳“ میں کہانی کے کردار مل کر زندگی کی معنویت ‘ انسان کے احساس تنہائی اور بے بسی میں تلاش کرتے ہیں ۔ جنم جہنم سلسلے کی اس آخری کہانی کا آخری جملہ زندگی کے حاصل کو سامنے لاتا ہے:”یہ جو لعنت کی کٹاری کی تیز دھار ہے نا‘ بالآخر یہی تو بندے کا مقدر ہے۔“
تین پارچوں پر مشتمل”پارہ دوز“ ایک مکمل کہانی ہے جس میں زندگی کی سبک رفتاری کو گرفت میں لینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ نئی نسل جو بے خوابی کے عارضے میں مبتلا ہو چکی ہے نہیں جانتی کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔ مُسکّن ادویات کے ذریعے اس عارضے پر قابو پانے کی کوشش ہوتی رہتی ہے مگر مرض کی تشخیص کو معطل رکھا جاتا ہے ۔اس کہانی کا مرکزی کردار ایک ڈاکٹر ہے جو زندگی کی لذت سے اتنی آگے نکل چکا تھا کہ اسے اپنی جون میں واپس آنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی ۔ آصف فرخی نے اسے ”دنیا زاد“ میں شائع کیا تو اس کی تیکنیک کو قابل توجہ قرار دیا تھا۔
”دُکھ کیسے مرتا ہے“ اور ”مرگ زار “ بھی محمد حمید شاہد کی اہم کہانیاں ہیں ‘ بلکہ زندگی اور موت کی انتہاﺅں پر پھیلی ہوئی دوقوسیں ہیں ۔ ”دکھ کیسے مرتا ہے“ میں ہم زندگی کے عظیم ترین جذبے ’محبت‘ کو نہایت معمولی سطح پر مرتے ہوئے دیکھتے ہیں جب کہ ”مرگ زار“ میں شہادت کی ابدی زندگی کے عظیم تصور کو دھوکے کی خوفناک موت مرتے دیکھا گیاہے۔ اپنی تیکنیک اور ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے دونوں کہانیاں موت کے موضوع پر ہونے کے باوجود بالکل الگ ہو گئی ہیں۔ ”مرگ زار“ کا موضوع بہت مشکل تھا اور یہ کہانی نازک ٹریٹمنٹ کاتقاضاکرتی تھی۔ یہ کہانی لکھتے ہوئے افسانہ نگار کو بھی خاصی احتیاط اورمشکل کاسامناکرناپڑا ہوگا۔ مگر وہ اپنی بات اورموقف کوتجریدکی دھند سے نکالنے اور بیان کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ا س کہانی کاموضوع جہاداورشہادت جیسا نازک مسئلہ ہے جس کی کچھ عرصہ پہلے تک کچھ اورصورت تھی مگر نائن الیون اور عالمی طاقتوں کی مداخلت سے اب کچھ اورصورت بن گئی ہے۔ یہ ایک دہلادینے والی پراثر کہانی ہے ۔”مرگ زار“ میں مری کا ماحول ایک بار پھر محمد حمید شاہد کے افسانوںمیں نمودار ہوتا ہے ۔ ”برف کا گھونسلا“ کی طرح ”مرگ زار “ افسانے میں بھی موت ڈیرے ڈالے ہوئے ہے مگر اس کہانی تک آتے آتے ایسا لگتا ہے کہ موت کے علاوہ سب سچائیاں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں۔ ”دکھ کیسے مرتا ہے “ کو جدید تر زندگی کے تناظر میں رکھ کر نفسیاتی سطح پر بنا گیا ہے جبکہ ”مرگ زار “ کہانی ایک سیدھ میں نہیں چلتی اور کئی قسم کے سوالات اٹھاتے انجام کار انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ یہ وہی کہانی ہے جسے بقول ساجد رشید وارث علوی نے پڑھا تو اس کی تیکنیک کو بہت سراہا جبکہ”دکھ کیسے مرتا ہے“ کو انگریزی میں ترجمہ کیا گیا اور یاسمین حمید نے اسے اکادمی ادبیات کے انگریزی جریدے ”پاکستانی لٹریچر“ میں شامل اشاعت کیاتو اسے پڑھ کر معروف عالمی اسکالر ایکسل مونٹے نے اسے جدید تر زندگی کے حوالے سے شاہکار افسانہ قرار دیاتھا۔
افسانہ ”پارینہ لمحے کا نزو ل “ کرافٹ پر محمد حمید شاہد کی غیر معمولی دسترس کا ثبوت فراہم کرتاہے۔ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ اور مشکل سے مشکل موضوع کو کہانی میں ڈھال لینے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس کہانی میں وہ اسی ہنر کو بروئے کار لائے ہیں۔ کہانی وقت کو چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں کاٹنے سے شروع ہوتی ہے اور جلد ہی اپنے قاری کو اس خلا کے مقابل کر دیتی ہے جس میں اس کہانی کی مرکزی کردار کا بے آبرو وجود زندہ لاش کی صورت پڑا ہوا ہے ۔ ” پارینہ لمحے کا نزول“میں جہاں تیزرفتاری سے بدلتی ہوئی انسانی صورت حال کی تصویردکھائی گئی ہے ‘وہیں انسانی رشتوں میں ہونے والی شکست و ریخت کو بھی بیان کردیا گیا ہے۔ یہ کہانی زندگی کے ایک نئے رُخ ‘ نئے پہلو‘ نئے واقعاتی و حسی ماجرائیت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا تہذیبی وجود اور ہمارے سماج میں خاندان اور رشتوں کی روایت جدید زندگی کے جبرکو برداشت کر سکے گی؟ یہ وہ سوال ہے جوافسانہ نگار محمد حمید شاہد نے ”تکلے کا گھاﺅ“ میںاٹھایا ہے ۔ کہانی دیہی اور شہری زندگی میں یوں بٹی ہوئی ہے کہ دونوں اطراف کے افراد کی حسیات میں وسیع خلیج حائل ہو گئی ہے۔ اس خلیج کی وسعت کو دکھانے کے لیے افسانہ نگار نے اس کہانی میں قدیم زبان ‘ جدید رواں زبان اور نئی نسل کے ہاں آکر بگڑ جانے والی انگریزی ملی ہوئی زبان کو استعمال کیا ہے ۔ باپ کاغذ پر جھکا قدیم زبان میں کہانی لکھ رہا ہوتا ہے۔ لمحہ ءرواں کی کہانی کو وہ مروجہ زبان میں بیان کرتا چلا جاتا ہے اور بیٹے کی زبان سے جو شدید جملے نکلتے ہیں اس میں تہذیبی زمین سے اکھڑنے کی پوری کہانی سمٹی ہوئی ہے۔ یہ کہانی آصف فرخی نے الحمرا کی طرف سے ۰۰۰۲ ءمیں شائع ہونے والے انتخاب” بہترین افسانے“ میں شامل کی تھی۔
افسانہ ”اللہ خیر کرے“میں بظاہر ایک دعائیہ جملے کو اس کہانی کا عنوان بنایا گیا ہے مگر اس کہانی کے ذریعے انسانی بطون میں چھپی ہوئی خباثت کو بھی سامنے انڈیل کر رکھ دیا گیا تھا۔ اس خباثت کی بنیاد وہ محبت بنی ہے جو بظاہر بھلا دی گئی تھی مگر اچانک سامنے آکھڑی ہوتی ہے ۔ محمد حمید شاہد نے اس کہانی کو کرداروںاور واقعات کے بہاﺅ سے یوں آگے بڑھایا ہے کہ کرداروں کی نفسیات کا مطالعہ بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔ متن ‘ مناظر‘ کہانی کا بہاﺅ اور کردارالگ الگ نہیں رہتے بلکہ ایک دوسرے میں پیوست ہو کریک جان ہو جاتے ہیں۔”اللہ خیر کرے“ بظاہرمحبت کی تکون کی کہانی ہے لیکن دراصل ےہ اس انسانی کمینگی اور خباثت کی نفسیاتی کہانی ہے جو آدمی کے اندر چھپی ہوتی ہے اور جس کا وہ خود بھی سامنا نہیں کرنا چاہتا۔
افسانہ ”آٹھوں گانٹھ کمیت“ میں ایک ایسے شوہر کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اپنی بیوی کی بے پناہ محبت کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ وہ آٹھوں جوڑوں سے مضبوط نسلی گھوڑے کی طرح صحت مند ہے اور اندر ہی اندر اس کا جی بے وفائی کرنے کو چاہتاہے ۔ یہ افسانہ مرد کے دل میں چھپی خباثت کی کہانی ہے مگر سارے ماحول پر عورت کی محبت چھائی ہوئی ہے۔ یہ مختلف ذائقے کی کہانی ہے جو انسانی رشتوں میں شکست و ریخت کو ایک نئے رخ ‘ نئے پہلو‘ نئے واقعاتی و حسی ماجرائیت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ اس کہانی میں بچی کھچی، ٹوٹی پھوٹی ، ادھ پچدّی زندگی کو تھامنے کے لیے ہاتھ پاوں مارنے کے منظر ہیں۔ بیوی کے گردگھومتی اس کہانی میں کشش اور گریز کی ساری قوتیں باہم دست وگریباں دکھائی دیتی ہیں۔ کھلی ہوئی آنکھیںجب سامنے کے روح فرسا مناظر سے تھک جائیں تو پل بھر کو پلکیں موند لینے سے راحت ملتی ہے اور دوبارہ دیکھنے کی اہلیت تازہ دم ہو جاتی ہے۔
افسانہ ”پارو“ میں محمد حمید شاہد نے پوٹھوار کی فضا میں ایک نسائی کردار کی بڑی مہارت سے تصویر کشی کی ہے ۔ اس میں ہمارے سماج کے توہمات ‘ لوگوں کے سوچنے کے اندازاور عورت کی بے بسی کو اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ گاﺅں کے منظر نامے سے طلوع ہوتی ایک ایسے مرد کی کہانی ہے جو فی الاصل نامرد تھا مگر اکھاڑے مارنے والایہ پہلوان اس حقیقت کو مان لینے پر قادر نہ تھا۔ لہذا اس نے اپنے بیل کے خصیے کچلوا ڈالے تھے ۔ بیل کا قصور یہ تھا کہ اس کے قریب آنے والی گائیں گابھن ہو جاتی تھیں۔ پارو کا کردار محمد حمید شاہد نے بہت محبت اور سلیقے سے تراشا ہے۔محمد حمید شاہد نے دیہی پس منظر میں تواتر سے کہانیاں لکھی ہیں ۔ ایسی کہانیوں کے سرائیکی تراجم کا ایک مجموعہ ”پارو“ کے نام سے ہی سرائیکی ادبی بورڈ نے ملتان سے چھاپ رکھا ہے۔
قدیم کتاب کے موت سے منسوب نیم تصویری باب کی بڑی ترازو سے شروع ہونے والی کہانی ”کتاب الاموات سے میزان عدل کاباب“میں ہماری قومی زندگی کا سانحہ ایک نئی معنویت پاتا ہے ۔ اس نئی کہانی میں بتایا گیا ہے کہ آتشیں گڑھے سے پار قائم کی گئی قدیمی میزان ِعدل پر جسم نہیں روحیں تُلتی تھیں ۔ سَت دِیوتاجس نے اَپنے بھائی ’اَسر ‘ کو قتل کیا تھا ۔ اور اَسر‘ جو قتل ہونے کے بعد پھرزندہ ہو گیا تھا اس کہانی کے دو بنیادی کردار ہیں ۔ کہانی میں غائب ہونے والے لوگوں اور مظلوموں کی دل خراش چیخوں کا تذکرہ ہوتا ہے اور ان لاشوں کا بھی جو امن تت کے علاقے میں گرائی جاتی تھیں۔ میزان عدل کے اوپر کو نکلے بانس پربیٹھے اور شور مچانے والا وہ بندر جو اس دِیوی میں بدل گیا تھا جس کے نیچے کا بدن ڈھکا ہوا ہوتا تو اس کی زبان سچ بولتی تھی اوردیوی لباس گرادیتی تو سارے بدن سے شہوت ٹپکتی تھی‘ کی علامت بھی ایک معنیاتی نظام تشکیل دیتی ہے۔ محمد حمید شاہد کا کہانی بیان کرنے کا اندازجو اس کہانی میں برتا گیا ہے حد درجہ منفرد اور اچھوتا ہے۔ یہ کہانی پڑھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں کہانی کے عصری حوالے سیدھے سبھاﺅ آگے چلنے سے انکارکردیں تو وہاں اساطیر کے بوسیدہ اوراق سے استفادہ نئی معنویت اجاگر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
محمد حمید شاہد کے افسانوں میں‘اپنی زبان اور تیکنیک کے لحاظ سے ”نرمل نیر“ حددرجہ قابل ذکر افسانہ ہے۔ افسانہ نگار نے ہندی اساطیر کے آہنگ میں رکھ کر اس افسانے کو لکھتے ہوئے ‘انسانی مقدر کو گرفت میں لینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ایک طرف جَل ہی جَل ہے پَوِتر جَھرجَھرگِرتا اور دوسری طرف مدَمتا ہے جو ا ِسی جَل میں اَشنَان کرتی‘ چھینٹےں اُڑاتی‘ دوڑتی پھرتی ہے۔ کہانی اس کے جَگرجَگرکرتی رَنس سے بنی ہوئی ہوئی بگھی کی سواری سے شروع ہوتی ہے جمالیاتی منظر بناتے ہوئے اس حقیقت کو کھو لتی ہے کہ آدمی کا مقدر یہی ہے کہ آنسو بہائے اور قطرہ قطرہ دَامن بھگوتا رہے۔یہ افسانہ اپنی زبان اور تیکنیک سے ایک جمال پارہ بن گیا ہے ۔
افسانہ ”معزول نسل“ کو محمدحمید شاہد نے وسیع ادراک اورگہری درد مندی سے لکھا ہے اور تیزی سے بدل جانے والے زمانے میں اس منظر نامے کو دریافت کیا ہے جو پرانی روش پر ٹھہرا ہوا ہے ۔ قصہ امن پور کی دو بہنوں کی پوری زندگیوں کا احاطہ کرتا ہے اور دیہی اور شہری زندگی کے تضاد کو ابھار کر اس انسانی المیے تک جا پہنچتا ہے جس سے آج کا انسان دو چار ہے ۔ بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرنے والا نمبردار فقیر محمد‘ سدا کی راضی بہ رضااس کی بیوی رضیہ اور دونوں بیٹیاں صفو اور عاشی ‘ یہ وہ کردار ہیں جو افسانے میں نہایت سلیقے ‘ ٹھہراﺅ اور محبت سے تراشے گئے ہیں۔ مگر محبت سے تراشے گئے یہ کردار جب اپنے اپنے مقدر کی زندگی کے مقابل ہوتے ہیں تو المیہ درد کی لے ہو جاتا ہے۔
افسانہ ”ککلی کلیر دی“میں محمد حمید شاہد نے مکالمہ کی تیکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ہماری زندگیوں سے رخصت ہونے والی خوشیوں اور پاکیزہ جذبوں کو کہانی کی صورت میں ڈھال لیا ہے۔ محمد حمید شاہد ان موضوعات کو بھی‘ جو بالعموم افسانے کا موضوع نہیں ہوتے ‘ انہیں افسانے کا موضوع بنانے کے لیے مخصوص تکنیک وضع کرنے میں کا میاب ہو جاتے ہیں ۔ اس افسانے میں خشک اور تنقیدی موضوعات کو انسانی زندگیوں سے جوڑ کر دیکھتے ہوئے افسانے پر تیکنیک کا نیا در کھول لیاگیا ہے۔
کہانی ” گانٹھ“ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی عالمی صورت ِ حال سے جنم لیتی ہے جس میں ایک ایسے پاکستانی ڈاکٹر کی افتاد دکھائی گئی جو کئی عشروں سے امریکہ میں آبادتھا۔ اس نے اپنے وجود ہی کو نہیںبلکہ جداگانہ شناخت‘ تصورات‘ خیالات اور احساس تک کو امریکی معاشرے میں مکمل طور پر ضم کر دیا ہے ۔ نو ستمبرکی ناگہانی افتاد نے اس کو بھی بہت سے ہم وطنوں کی طرح شک وشبہ کے خندق میں پھینک دیا اور بالآخر اسے بھی ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ رشتے ناطے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گئے ۔ اس کے بیوی بچوں کا اس سے بس ایک ہی مطالبہ تھا کہ وہ ڈی پورٹ ہونے سے پہلے اپنی تمام دولت سے دست برداری کے کا غذات پر دستخط کر دے تا کہ وہ اس کے بعد اطمینان سے زندگی گزار سکیں۔ بظاہر یہ بھی عالمی سیاست کے تناظر میں لکھی گئی ایک کہانی نظر آتی ہے مگر غورکریں تو اس میں انسانی رشتوں کی شکست و ریخت اور تہذیبی و ثقافتی قدروں کی پائمالی اور نامعتبری کا المیہ دکھائی دے گا جو دنیا کی ایک مہذب ترین قوم کی مفاد پرستی کے نتیجہ میں سامنے آیا ہے۔ انسانی توقیر ‘عالمی امن کی داعی اور تہذیبی فروغ کی دعویدار قوم جو اپنے مفاد کے حصول کے لیے طاقت کے نشہ میں شرابور کسی اخلاقی ضابطہ کی پابند نہیں۔ اس کہانی میں وہ ایسی قوت بن کر سامنے آتی ہے جو حصول مقاصد کے لیے انتہائی درجہ کی پست ذہنیت ‘تکبر‘جارحیت اور لاقانونیت کی مبلغ دکھائی دیتی ہے۔ اس کہانی کو بھی محمد حمید شاہد نے نہایت احتیاط اور التزام کے ساتھ لکھا ہے اور حالات و واقعات کی تیزوتند روانی کو قابو میں رکھنے کے لیے ایسے چھوٹے چھوٹے ٹچز(touches) کے ذریعہ معنویت کے اسرارپیداکیے ہیںجو سیدھے سادے اسلوب میں مشکل ہو تے۔ ”گانٹھ“ میں محمد حمید شاہد نے گوگول کے افسانے کی تھیم اور چیدہ چیدہ مناظرکو کہانی کے موضوعاتی فریم میںاس فنی سلیقے کے ساتھ پینٹ کیا ہے کہ یہ واقعہ اپنی تمام تر عصری صداقتوں پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہوا خیرو شر کے دائمی دیارتک جا پہنچتا ہے۔یہ صورت واقعہ ان کی وسعت مطالعہ اور اس مطالعہ کے حاصل کا ان کے تخلیقی وجود میں حلول کر جانے کا مظہر بھی ہے۔ علاوہ ازیں یہ اس بات کی تصدیق بھی ہے کہ ہر بڑی تخلیق کا ماقبل کی بڑی تخلیقات کے ساتھ کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہوتا ہے۔
”موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ایک اور کہانی ہے جو عالمی تناظر میں لکھی گئی ہے۔ اس کہانی میں افغانستان اور عراق میں رونما ہونے والے شعلے اور وحشت و بربریت کے نظارے پس منظر کاکام دے رہے ہیں۔ یہ کہانی بھی عالمی استعمار کے خلاف بلند آہنگ احتجاج ہے جس نے اجتماعی اموات کے ذریعے فرد واحد کی موت کو بھی بے توقیر اور غیر اہم بنا دیا ہے ۔ محمدحمیدشاہد انسانی رشتوں کی عجیب سفاکی کو کہانی کا موضوع بناتا ہے۔نائن الیون کے پس منظر میں لکھی گئی اس کہانی یا اس موضوع کی دوسری کہانیوں میں ہمیں مقامی طور پر لوگوں کو جبر کا شکار بنانے والے وہ بوزنے نظر آتے ہیںجو کہیں دور بیٹھے اصل کرداروں کی نقل کر رہے ہیں اور یہ نقل بھی کافی بھونڈی ہے ۔
”ناہنجار“ ایسی کہانی ہے جسے محمد حمید شاہد نے دو بار لکھا۔ پہلے یہ کہانی پنجابی میں لکھی گئی اوررسالہ ”زہاب“بورے والا میں ”کلموہنا “ کے نام سے شائع ہوئی ۔ اس کہانی کو اردو میں منتقل کرتے ہوئے کہانی کا ہلکا پھلکا اور سیدھا سادا بیانیہ بحال رکھا گیا ہے۔ انسانی بطون میں جھانکنا اور اس کی تلچھٹ سے جذبوں ‘ سوچوں اور نیتیوں کو نتھار لانا محمد حمید شاہد کی فکشن کا ایک وصف خاص ہے۔ یہ کہانی اسی رجحان کی نمائندہ ہے ۔
ہمارے یہاں دفتری زندگی کے بارے میں بہت کم کہانیاں لکھی گئی ہیں ۔ اس موضوع پرقدرت اللہ شہاب ، منیر احمد شیخ اوروقاربن الٰہی کے بعدمحمد حمیدشاہد کی کہانیاںقابل توجہ ہیں۔ ان کی کہانی ” ادارہ اور آدمی “اس کی ایک عمدہ اوربھرپور مثا ل ہے۔ اس کہانی میں عالمی معاشی صورت حال کے سامنے انسان کی بے بسی کو پیش کیا گیا ہے ۔ یہاں افسانہ نگارنے گنتر گراس کے اس بیان کو کہانی کی بنیاد بنایا ہے کہ ”جب کوئی ادارہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ دو سو نوکریاں چھانٹ رہا ہے تو اس کے حصص کی قیمت جست لگا کر بڑھ جاتی ہے ۔ یہ دیوانگی ہے“۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا آج کا معاشرہ انسانیت کش اقدامات کرکے ذاتی فائدے کے لیے دوسرے انسانوں کی گردنیں مارنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس افسانے کی زبان دفتری قسم کی ہے مگر افسانہ نگار نے اسے تخلیقی زبان بنا دیا ہے ۔
دفتری موضوع پر لکھی گئی محمد حمید شاہد کی ایک اور کہانی ”واپسی“ ہے جس میں انسانی رشتوں کی نزاکتوں کا بیان بھی در آیا ہے۔ اس کہانی میں فضل احمد اور مریاں جیسے کردار وں کی تشکیل میں جس گہرے مشاہدے اور ہنر سے کام لیا گیا ہے اس نے انہیں فکشن کے زندہ کردار بنا دیا ہے۔
”بھرکس کہانیوں کا اندوختہ آدمی“افسانے کی اشاعت جب”نقاط “ فیصل آباد میں ہوئی تو افسانہ نگار نے اسے ”ناکہانی “قرار دیا۔ یہ کہانی فن اور فن کار کے درمیان رشتوں کے کھوج سے شروع ہوتی ہے اور اپنا موضوعاتی کینوس وسیع کرتے ہوئے مشرقی اور مغربی زندگی میں رشتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کو اپنے اندر سمیٹ کر ایک نئی معنویت کا در باز کر دیتی ہے۔ یہ کہانی ایسے آدمیوں کا المیہ بیان کرتی ہے جو دیار غیر میں اپنے اپنے خاندانوں کو سنوارنے کے لیے گئے اور وہیں کے ہو رہے ۔ یہاں تک کہ وہاں کی تیز رفتارزندگی نے انہیں تنہا کر دیا۔ محمد حمید شاہد کی اس کہانی نے مغرب میں بس کر سب کچھ حاصل کر چکے آدمی کے اند بوسیدہ جذبوں سے زندگی کی امنگ کو ڈھونڈ نکالا ہے ۔ یوں ایک ناکہانی ‘ انسانی نفسیات کی سچی کہانی بن گئی ہے ۔
”جنریشن گیپ“ جیسا اس کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ دو نسلوں کے ٹکراﺅ اور کشمکش کی کہانی ہے۔ پہلی نسل اپنی مٹی، تہذیب اور روایات سے جڑی ہوئی ہے، وہ کھیتوں میں محبت اگاتے ہیں، وہ زمین کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں اور مویشیوں سے بھی اولاد کی طرح محبت کرتے ہیں ۔ نئی نسل زمین سے تعلق توڑ کر بلندی میں پرواز کرناچاہتی ہے اور بلندی میں ےہ خرابی ہے کہ جوں جوں بڑھتی جاتی ہے زمین کی چیزیں اتنی ہی حقیر اور چھوٹی نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ موضوع اگرچہ نیا نہیں لیکن دلکش اسلوب بیان اور لفظیات نے اسے نیا ذائقہ بخشا ہے اور زمین سے جڑی ہوئی معاشرت اپنی ساری محبتوں اور مہکاروں کے ساتھ اس کہانی میں اجاگر ہوئی ہے ۔
”اپنا سکہ“ جدید حسیت کی حامل اور دلربا اسلوب کی حامل کہانی ہے ۔ مختلف اساطیری روایتوں اور حوالوں نے اس کی معنویت اور تاثر کو گہرا کردیا ہے۔”اپنا سکہ “کے اعلیٰ حضرت کو چونکہ مال و دولت اور اولاد کے فتنے نے بوکھلا کر رکھ دیا ہے لہذا وہ ترک علائق کا راستہ اپنانے پر مجبور ہیں ۔ ایک ہجوم ہے جو ان کے ملفوظات کو سمیٹنے کے لیے بے تاب ہے مگر ان کے بیٹے اپنے باپ کی محبت میں نہیں ‘بلکہ رائے عامہ کے خوف سے انہیں گھر لے جانا چاہتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت ایسے معاشرے اور ایسے گھر جانے سے انکار کر دیتے ہیںجہاں ریاکاری‘ منافقت اور میکانکی کاروباریت سکہ رائج الوقت ہے۔ انہیں اپنا وہی سکہ عزیز ہے جو اساطیرالاولین سے برآمد ہونے والی ابدی صداقتوں میں ڈھالا گیا ہے ۔ یہ کہانی دراصل عصریت اور ابدیت کے درمیان جاری مکالمہ کا درجہ رکھتی ہے۔
”آخری صفحہ کی تحریر“آدمی کی سرشت کی کہانی ہے ۔ ایک ایسے قتل کی کہانی جو آدمی کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے ۔ اس مقدر کا جبر ہے جو وہ اپنا وجود کاٹ دینے پر مجبور ہے ۔ یہ ایک علامتی کہانی ہے ‘ جو مزاحمت کے شدید جذبے سے پھوٹی ہے۔ یہ کہانی مزاحمتی ادب کے اس انتخاب میں شامل ہے جو اکادمی ادبیات پاکستان نے شائع کیا ہے۔
”کفن کہانی“محمد حمید شاہد کی ان کہانیوں میں شامل ہے جن کی تکنیک اور موضوع کی وسعت قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے ۔ اس کہانی کا بیانیہ سپاٹ نہیں، بہت تہہ دار اور پیچیدہ ہے ۔ پنجاب کی لوک روایات کے ساتھ ساتھ ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی غربت ‘ناانصافی‘ سماجی پس ماندگی کا بیان ‘گویا اس کہانی کے ذریعہ افسانہ نگار نے انسانی باطن میں جھانکنے کی سعی کی ہے جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہا ہے ۔
افسانہ ”دوسراآدمی “ میں بتایا گیا ہے کہ آدمی وہ نہیں ہوتا جو بظاہر دکھائی دیتا ہے یاوہ جیسا نظر آنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ اصل آدمی تو کہیں اندر چھپا ہوتاہے اور ایک روز اچانک تہذیبی پوست پھاڑ کر سامنے آجاتا ہے۔اس کہانی کے مرکزی کردار کے ساتھ سفر کرنے والا حلیم آدمی جب سفر مکمل ہونے پر جھولتا ہوا ایک طرف چل پڑتا ہے تو اس کے اندر کا کمینہ آدمی قاری کے اندر گھس جاتا ہے۔
”ماخوذ تاثر کی کہانی“ ایک ایسے معاشرے کی جھلک پیش کرتی ہے جہاں لمبی تھوتھنیوںوالے اپنی جون بدل کر انسانی بستی میں جا پہنچے ہیں۔ روز کسی پر شب خون مارتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہاں صرف وہ رہ جاتے ہیں جو اپنی جون میں نہیں ہیں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوتا ہے کہ کتوں ‘چوہوں اور سانپوں کی اس بستی میں ایک مجذوب آنکلتا ہے اور افسانے کے مرکزی کردار سے مکالمہ کرتے ہوئے اسے ایک روحانی تجربے سے گزارتا ہے ۔ بے شک ہوس کی راہوں پر سرپٹ دوڑتے ہوئے افراد کی تمام بیماریوں کا علاج بے ریا محبت سے ہی ممکن ہے۔ محبت کا آب حیات ہی اس معاشرے کی مخلوق کو آدمی کی جون میں واپس لاسکتا ہے۔ محمد حمید شاہد نے اس افسانے میں ایک تخلیق کار کے کرب اور سماج ‘ خاندان کے خلاف اس کی جدوجہد اور بے بسی کو پیش کیا ہے ۔ حالات کی جبریت کو توڑنے کا سب سے بہتر ذریعہ ”تخلیق“ ہے ۔ ہر نئی تخلیق اس بات کا اعلامیہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے اردگرد موجود حالات کی جکڑ بندی کو توڑ سکتا ہے ۔ کہانی کے مرکزی کردار کی ساری زندگی اپنے خاندان کی ضروریات پورا کرنے کے عمل کی نذر ہو جاتی ہے یوں تخلیق کار دہرے کرب سے گزرتا ہے ۔ یہ وجودی کرب تخلیق کار کو بری طرح پیس کر رکھ دیتا ہے ۔
ہم نے محمد حمید شاہد کے افسانوں کے بارے میں جستہ جستہ اظہار خیال کیا ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ دوسرے مقتدر اہل قلم ان کے افسانوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
ڈاکٹر شفیق انجم ‘جو نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز میں استاد ہیں ‘ اپنی تصنیف”اُردو افسانہ“ میں لکھتے ہیں :” حمید شاہد کے افسانوں میں تفکر ‘تجسس اور تاثر مل کر یک رنگ ہوجاتے ہیں....” جنم جہنم“ اور”مرگ زار“ کے افسانوں میں علامتی تہہ داری موجود ہونے کے باوجود بیانیہ کو اولیت حاصل ہے۔ ان کی علامتیں زیادہ تر لوک داستانوں‘ اساطیر‘ مذہبی قصوں اور مظاہر فطرت سے متعلق ہیں۔ ان کے افسانوں کی انفرادی جہت وہ ذہنی و روحانی سفر ہے جو مختلف ابعاد میں پھیل پھیل کر اپنا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس عمل میں حمید شاہد کہانی کا تاناباناتیار کرتے ہیں‘جو لفظیات استعمال کرتے ہیں اور جملوں کی دروبست میں جو التزام رکھتے ہیں وہ ان کے جمالیاتی و وجدانی جڑاﺅ کو کہانی کی متنی سطح تک لے آتے ہیں ۔ حمید شاہد زندگی کی تلخ حقیقتوں کے اظہار میں اور تجسس و حیرانی کی نئی دنیاﺅں کے انکشاف میں جذباتی نہیں ہوتے بلکہ ایک باوقار سنجیدگی اور متانت ہمہ دم رکھتے ہیں اور میرے خیال میں یہی پہلو اس فن کار کی جدید افسانہ نگاروں میں انفرادیت کا بڑا حوالہ ہے۔“
معروف نقادپروفیسر فتح محمد ملک‘ صدر نشین مقتدرہ قومی زبان نے محمد حمید شاہد کے افسانوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ” اپنی زندگی کا بیشتر حصہ شہروں میں بسر کرنے کے باوجود محمدحمید شاہد کے اندر وہ دہقان بچہ زندہ ہے جس کی سادہ و معصوم دنیا میں چرند پرند اور آدم زاد ایک ہی کنبے کے افراد ہیں ۔ مظاہر کی کثرت میں وجود کی وحدت کا روحانی احساس جس تحیر اور تجسس کو جنم دیتا ہے اس نے شاہد کو ہندوستانی اور یونانی اساطیر کی تیرہ و تار دنیا کی خاک چھاننے اور پھر ظلمات سے نکل کر صحف سماوی کی نور علٰی نور فضا میں پہنچ کر معصیت اور معصومیت کے اسرار سمجھنے پر اکسایا ہے۔“
ڈاکٹر انوار احمد‘ جو فکشن کے ایک مقتدر نقاد ہیں ‘ اپنی تصنیف ”اردو افسانہ:ایک صدی کا قصہ“ میں محمد حمید شاہد کے اسلوب کی انفرادیت کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :” ایک طرف سرئیلسٹک انداز بیان.... اور دوسری طرف وہ بیانیہ اسلوب .... جس میں علامتی و تمثیلی اجزا یوں شامل ہیں کہ روایتی اسلوب سے جڑاﺅ کے ساتھ ‘ افسانہ نگار کی الگ شناخت بھی متعین کرتے ہیں“۔
بھارت کے معروف افسانہ نگار اور ناول نگار مشرف عالم ذوقی نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ ”آئندہ“کراچی میں کہا ہے کہ ”سورگ میں سور“ جیسی کہانیوں کے خالق محمد حمید شاہد آج پاکستان کی نئی کہانی کا ایک ایسا ناقابل فراموش چہرہ بن چکا ہے، جس کی کہانیو ںمیں’آج‘کے ’گملے‘ میں اُگے ہوئے نوکیلے کانٹے صاف نظر آجاتے ہیں۔ اپنے گھر، اڑوس پڑوس، ارندھتی رائے کی شہرئہ آفاق تصنیف ’دی گاڈ آف اسمول تھینگس‘ کی طرح حمید شاہدان کانٹوں کی تلاش میں باہر نہیں جاتے،وہ عالمی پیمانے پر بُنی جارہی دہشت پسندی کو اپنے آس پاس ہی تلاش کرلیتے ہیں۔’مرگ زار‘ اور دوسری کہانیاں اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
معروف محقق اور نقاد سید مظہر جمیل نے اپنے مضمون ”مطبوعہ آفاق“ راولپنڈی میں لکھا ہے کہ ‘محمد حمید شاہد واردات و ماجرائیت کا کہانی کار نہیں ہےں۔ کسی واقعے اور حادثے کی رپورٹنگ ان کا منصب نہیں ہے۔ وہ توواقعات و حوادث اور افتاد و گداز سے پیدا ہونے والی حسی لہروں کو اپنے تجربے کے انٹینا کی مدد سے اپنے احساس میں جذب کر لیتے ہےں اور پھر انہیں تخلیقی طور پر تصویروں کی صورت میں نشر کر دیتے ہےں ۔ کہیں یہ تصویریں اپنے منظر‘ پس منظرکے ساتھ رواں دواں دکھائی دیتی ہیںاور کہیں وہ ان کے التباس اور پرچھائیوں سے فضا سازی کاکام انجام دیتے ہےں کہ حقےقت اور علامت نگاری بھی حمید شاہد کی فنی دسترس سے باہر نہیں رہے ہیں۔
محمدسلیم الرحمن فکشن‘ نظم اور اپنے تراجم کے سبب ادبی حلقوں میں احترام سے دیکھے جاتے ہیں انہوں نے اپنے ایک انگریزی کالم مطبوعہ”فرائیڈے ٹائمز“ لاہور میں ”مرگ زار“ کے حوالے سے لکھا : گوکہ یہ حمید شاہد کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ ہے مگر اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔شاہد کا بنیادی وظیفہ یہ رہا ہے کہ اپنے اردگرد پھوٹ پڑنے والے فساد اور انہدام کو فکشن کا حصہ بنانے کے لےے مناسب ادبی جمالیات کو ڈھونڈ نکالتے ہےں۔
بھارت کے معروف ادیب اور ”انتخاب“ گیا کے مدیر نے اپنے مضمون ”بیان اپنا“ میں محمد حمید شاہد کو پاکستان کے جدید معتبر افسانہ نگاروں مےں یوں اہم گردانا ہے کہ بقول ان کے ” اسلوب ‘ موادو موضوع‘ فکرودانش‘اور معاشرتی زندگی کو نئے انداز نظر سے دیکھنے کے حوالے سے حمید شاہد کی طرف لوگوں نے توجہ دی ہے۔ اردو افسانے کی نئی تاریخ میں اپنے دستخط رقم کرنے والے فن کار محمد حمید شاہد کا مطالعہ سنجیدگی کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ مسئلہ صرف ایک فن کار کا نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ نئے اردو افسانے کی سمت و رفتار کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ان کے کئی افسانے نئے حالات میں نئے Ethics کی تشکیل پر اصرار کرتے ہیں۔ حمید شاہد تکنیک کے کئی تجربات کرکے اردو افسانے کے بیانیہ میں تخلیقی ابعاد پیدا کر رہے ہیں ۔ ہشت پہلو معنویت کے ساتھ وہ اپنے تہذیبی ورثے کے فکری اور اخلاقی ذخیروں تک پہنچنا چاہتے ہیں اس لیے کہ ان کے یہاں فن کار فن پارے سے ذرا دور دور رہتا ہے ۔ ایک نئے انداز کی Objectivity ہےجو حمیدشاہد کے یہاں ابھر رہی ہے اور جو فن اور فن پارے کے نئے باہمی رشتے کی اشارہ نما ہے “۔
”شب خون“ جیسے ادبی تاریخ رکھنے والے جریدے کے مدیر‘ معروف نقاد اور فکشن نگار شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضمون ”دکھ کا دیباچہ‘مطبوعہ ”سبق اردو“ بھدوہی بھارت‘ میں لکھا ہے کہ ” محمد حمید شاہد نہایت ذی ہوش اور حساس قصہ گو معلوم ہوتے ہیں ۔ بظاہر پیچیدگی کے با وجودان کے بیانیہ کا وصف یہ ہے کہ ہم قصہ گو سے دور نہیں ہوتے‘حالانکہ جدید افسانے میں افسانہ نگار بالکل تنہا اپنی بات کہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ محمد حمید شاہد کی دوسری بڑی صفت ان کے موضوعات کا تنوع ہے۔ اسے محمد حمید شاہد کی کی بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہیے کہ وہ ایسے موضوع کو بھی بیانیہ میں بے تکلف لے آتے ہیں جس کے بارے میں زیادہ تر افسانہ نگار گو مگو میں مبتلا ہوں گے کہ فکشن کی سطح پر اس سے کیا معاملہ کیا جائے۔“
اپنی اس گفتگو کا اختتام میں معروف افسانہ نگار محمد منشایاد کے اس اس اقتباس پر کرنا چاہوں گا جو دراصل اس گفتگو کا حصہ ہے جو ”تخلیقی عمل:ایک مکالمہ“ کے تحت کی گئی اور جو محمد حمید شاہد کی تصنیف ”اردو افسانہ:صورت و معنٰی“ میں شامل ہے۔ وہ کہتے ہےں: ”محمد حمید شاہد کے فن ِاَفسانہ نگاری کی اہم خوبی ہے کہ وہ کسی ایک خاص ڈکشن کے اسیر نہیں ہوئے اور صاحبِ اسلوب بننے کی کوشش میں خود کو محدود نہیں کیا ۔ صاحبِ اسلوب اور صاحبِ طرز کہلانے کی خواہش نے اچھے اچھوں کو ضائع کر دیا ۔ کوئی موضوع یا مواد خواہ کتنا ہی قیمتی ہوتا اگر ان کے پہلے سے بنائے گئے فنی سانچے میں فٹ نہ ہوتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے مگر اپنے اسلوب میں لچک برداشت نہ کرتے۔ انہیں کہانی سے زیادہ اسلوب عزیز ہوتا۔ مگر حمیدشاہد کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ وہ خیال ،مواد اورموضوع کے ساتھ تکنیک اور اسلوب میں ضرورت کے مطابق تبدیلی پیدا کرلیتے ہیں۔ وہ ہررنگ کی کہانی لکھنے پرقادرہیں۔ان کی کہانیاں زمین سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں، اپنی تہذیب ،ثقافت اور اقدار کی خوشبولیے ہوئے اوراَفسانے کی روایت سے گہرا رشتہ رکھتے ہوئے لیکن تازگی اورندرت کی حامل اورایسی پراثرکہ پڑھ لیں تو پیچھا نہیں چھوڑتیں ۔ اندر حلول کرجاتی ہیں۔ خون میں شامل ہو جاتی ہیں۔ “
”بند آنکھوں سے پرے“ سے ”جنم جہنم“ اور ”مرگ زار “ سے اب تک کے دیگر افسانوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ محمد حمید شاہد خود ایک مکمل Galaxyہیں- وہ اپنے آپ کو کہیں دہراتے نہیں۔ ان کے ہر افسانے کی اپنی ایک الگ نوعیت اور شناخت ہے ۔ محمد حمید شاہد کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے ‘ دنیا سے متعلق ہمارے سابق یا بھولے بسرے علم کا احیا ہی نہیں ہوتا‘ بلکہ ہمیں باہر کی دنیا کا نیا ادراک حاصل ہوتا ہے‘ یعنی ہم محض بازیافت ہی نہیں کرتے بلکہ نئی یافت سے ہم کنار بھی ہوتے ہیں۔ بقول مبین مرزا فکشن محمد حمید شاہد کا مشغلہ نہیں بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ فن سے سچی اور کھری وابستگی نے افسانہ نگار کو ایک ایسی راہ پر گامزن کر دیا ہے جہاں خارجی حقیقت نگاری اور باطنی صداقت پسندی مل کر ایک ہو گئی ہیں ۔ انسانی زندگی کاا لمیہ ہویا سیاسی وسماجی حالات کا دھارا‘ محبت کے کومل جذبے ہوں یا رشتوں کی مہک‘ ریاستی گروہی جبر ہو یا عالمی دہشت گردی یا پھر تہذیبی حوالوں کو نگلتی بازاری ثقافت ‘محمد حمید شاہد کا قلم یکساں روانی اور تخلیقی وقار کے ساتھ سب کو سمیٹتا چلا جاتا ہے۔
فن کار کا ایک منصب یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تخلیق کو انسانی فطرت سے ہم آہنگ کرے۔ محمدحمیدشاہد نے اپنے بیانیے کو ایک سے زائد سطحوں پر ےوں متحرک کرلیا ہے کہ وہ مطلق طور پر انسانی آہنگ میں ڈھل گیا ہے۔ اسی لیے تو احمد ندیم قاسمی کو کہنا پڑا کہ” محمد حمید شاہد کے افسانوں کا ایک ایک کردار ‘ایک ایک لاکھ انسانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔“ خود شعوریت سے جہاں افسانہ نگار نے متن در متن یعنی Frame Narrativeکی صورت گری کی ہے وہاں انہوں نے اپنے افسانوں کو ایک نئی قسم کی حقیقت نگاری کی راہ بھی سجھا دی ہے ۔ محمد حمید شاہد کے ہاں نوحقیقت پسندی کے حوالے سے عمدہ مثال بن جانے والے افسانوں میں” برف کا گھونسلا“ ” برشور“ ” لوتھ“ تکلے کا گھاﺅ“ ” ملبا سانس لیتا ہے“ ” موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ ”جنم جہنم“”چٹاکا شاخ اشتہا کا“ ” آدمی کا بکھراﺅ“ ”پارہ دوز“ اور ” مرگ زار“ جیسے افسانے شامل ہیں۔ واضح رہے کہ بقول ناصر عباس نیر، محمد حمید شاہد کی نو حقیقت پسندی دراصل زندگی پر غیر مشروط مگر کلی نظر ڈالنے سے عبارت ہے اور یہ اس توازن کو بحال کرتی ہے جسے جدیدیت پسندوں کی نافہمی اور ترقی پسندوں کی انتہا پسندانہ روشوں نے پامال کر دیا تھا۔ محمد حمید شاہد کے افسانے ”سورگ میں سور“ ”گانٹھ “ اور مرگ زار“ نہ صرف پاکستان اور اردو ادب کے شاہکار تسلیم کیے جائیں گے بلکہ آنے والے عہد کا نقاد انہیں گوگول کے ”Dead Souls“ اورBoccaccio )بوکیچو( کی ”Decameron “ اور ہیگل کی”Logic“ کی طرح ادب عالیہ میں شمار کرے گا۔

ڈاکٹر توصیف تبسم
اسلام آباد:جون ۸۰۰۲



Muhammad Hameed Shahid

My photo
Muhammad Hameed Shahid is a Urdu fiction writer and literary critic. His first collection of short stories was 'Band Ankhoon se Paray'(1994) followed by 'Jannum Jahunam' in 1998 and 'Margzar'in 2004. His novel 'Mitti Adam Khati Hae'was published in 2007. In addition he is author of books on literary criticism. On the occasion of Independence Day, 14th August, 2016, the President of the Islamic Republic of Pakistan has conferred ‘Pakistan Civil Award’TAMGHA-I-IMTIAZ to M Hameed Shahid (Fiction writer & Critic) for showing excellence in the field of literature.

Followers